علامہ اقبال رحہ :سماجی ومعاشی تناظر (فکری خطاب)

Loading

حصہ 01

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی سید الانبیاء والمرسلین وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن:

قابلِ احترام ڈاکٹر محمد حنیف صاحب،قابل احترام ڈاکٹر مسعود الحسن صاحب،قابل احترام ڈاکٹر ابن حسن صاحب، قابل احترام ڈاکٹر صادق شاہد صا حب، جناب مظہر اقبال صاحب، جناب اے ڈی خان صاحب قابل احترام ڈاکٹر جنید صاحب، معزز فیکلٹی ممبرز سٹوڈنٹس السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یونیورسٹی انتظامیہ کا، اس شعبہ کا بہت بہت شکریّہ جنہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں ’’اقبال: سماجی و معاشی تناظر ‘‘ (Iqbal in Socio-Economic Perspective) پہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکوں-ڈاکٹر ابن حسن صاحب نے اپنی تمہید میں جو کچھ کہا میں سب سے پہلے اُسے Endorse کرنا چاہتا ہوں کہ وہ واقعی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے- جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو میں سب مکاتب ِ فکر؛ سیاسی و مذہبی ؛ اُن کا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کا سادہ سا مطلب اقبال ہے – اگر اقبال نہیں، اقبال کی فکر نہیں، توپاکستان لفظ کو، پاکستان جغرافیہ کو کوئی معنیٰ نہیں دیا جاسکتا- میں اس سےپہلےکہ موضوعِ گفتگو کی طرف آؤں آپ کوبتادوں کہ میں اکانومسٹ نہیں ہوں، نہ ہی وادیٔ معاشیات کی پیچا پیچ گھاٹیوں کے صبح و شام سے واقف ہوں اِس لئے میری گفتگو موضوع کے نسبتاً سطحی پہلؤں پہ رہے گی – لاعلمی کا اعتراف کر لینے سے آپ بہت سی مصیبتوں سے بچ جاتے ہیں اور بڑے دعوے اپنے ساتھ بڑی مصیبتیں بھی لاتے ہیں – مَیں موضوع کو اس طریقےسےبیان کروں گا جیسے ایک عام انسان اپنی ڈے ٹو ڈے اکنامکس میں اس کوسمجھنے کی کوشش کرتا ہے یا اقبالؒ کے تاریخی تناظر میں یا آپ اقبالؒ سے اکنامکس کے تصورات کا تھیم کیسے سیکھ سکتے ہیں-

علامہ اقبالؒ کے بارے میں ابتدائی بات کردوں کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں اقبال سے نسبت رکھتا ہوں مجھے یہ بڑا فخر محسوس ہوتا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے قد کے برابر پاکستان کا کوئی اور شاعر، ادیب، تجزیہ نگار اور سیاسی مفکر نہیں ہے جس کو اتنی عالمی پذیرائی ملی ہو جتنی علامہ اقبال کو ملی ہے- آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے اندر اشتراکی ادبی تحاریک کا پچاس کی دہائی سے لے کر اَسّی کی نصف دہائی تک بڑا زور تھا جنہیں اُس وقت کے بائیں بازو کی تحاریک کہا جاتا تھا- اُن کا پاکستان میں بڑا چرچا اور اجارہ تھا ان کے پاس بڑے ذرائع، روابط، فنڈنگ اور عالمی امداد تھی یعنی کوئی انہیں تسلیم کرے یا نہ کرے اُن کے نام لینن ایوارڈ تو پکا تھا-لیکن اس کے باوجود پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شاعر کے دنیا میں اتنے تراجم نہیں ہوئے جتنے علامہ اقبال کی شاعری کے ہوئے ہیں-یورپ کی ہر بڑی زبان میں اقبال کے تراجم ہوئے ہیں- پولسکی ہو، پرتگالی ہو، سپینش ہو، اطالوی ہو، انگلش ہو، انگلش میں تو بذات خود اقبال نے لکھا ہے، جرمن ہو، فرانسیسی ہو، لاطینی ہو، پھر اسی طرح آپ ایشیاء میں دیکھیں روسی،چینی، جاپانی، کوریئن، ملائ، انڈونیشیائ، عربی، فارسی میں تراجم موجود ہیں بلکہ فارسی میں تو اُنہوں نے خود بھی لکھا اور آپ خطہ بہ خطہ تحقیق کریں، نظر دوڑائیں آپ ہر زبان میں اقبال کو پائیں گے –

جاری ہے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں